[Urdu News] خواتین فٹبالرز: ’باپردہ ہوں پھر بھی ہراسانی کا سامنا رہتا ہے‘

[Urdu News] خواتین فٹبالرز: ’باپردہ ہوں پھر بھی ہراسانی کا سامنا رہتا ہے‘

فواد حسن – کراچی

شام پانچ بجے کا وقت ہوتے ہی لیاری کے تاریخی ککری گراؤنڈ میں گہما گہمی بڑھتی ہے اور دقیانوسی معاشرے میں ایک کرن جاگتی ہے جب یہاں جا بہ جا مردوں کی نظروں سے بچتی بچاتی چند بچیاں میدان میں داخل ہوتی ہیں۔
بارہ سال سے چودہ سال تک کی عمر کی یہ لڑکیاں، باحجاب و باپردہ، یہاں آکر اپنی اکیڈمی کے دفتر میں کھلینے کی کٹ پہنتی ہیں اور ایسا کھیل کھیلتی ہیں کہ لیاری کے معروف فٹبال کھیلنے والے بھی تعریف کرنے مجبور ہیں۔
مگر اپنے کھیلنے کے حق اور آزاد زندگی جینے کی آس کے لیے یہ بچیاں بہت بڑی قیمت ادا کر رہی ہیں۔
سولہ سالہ مشعل جو انٹرینشنل فٹبال بھی کھیل چکی ہے کہتی ہے کہ وہ میدان تک با پردہ آتی ہے مگر پھر بھی اسے رستے میں اور کھیلتے وقت شدید ہراسانی کا سامنا رہتا ہے۔ ’کبھی کوئی پیچھے سے  آواز دیتا ہے تو کبھی کوئی ہاتھ پکڑ کر کہتا ہے کہ کھیلنا چھوڑ دو ورنہ ہم یہاں سے اٹھا کر لے جائیں گے۔‘
مقامی لوگوں کا ردِ عمل ایک طرف، دوسری جانب جافا اکیڈمی کے کوچ جاوید عرب، وائس چیئرپرسن ہانی بلوچ اور سیکریٹری ڈاکٹر اصغر دشتی نے کئی بار انسانی حقوق کی تنطیموں سے رابطہ کیا جس کے بعد مقامی انتظامیہ نے لڑکیوں کی حفاظت کے لیے ان کے پریکٹس کرنے کے میدان کے گرد نیٹ لگانے کی منظوری دی۔ تاہم جب مزدور بھیجے گئے تو کچھ شر پسند عناصر نے ان مزدوروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔

اکیڈمی کی وائس چیئرپرسن ہانی بلوچ جو خود بھی انسانی حقوق کے لیے خاصی سرگرم ہیں کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ دو سال سے چل رہا ہے۔ ’بچیوں کو ہراساں کرنے کے ساتھ ساتھ ان کے میدان پر کچھ قدامت پرست لوگ کچرا لا کر گراؤنڈ میں پھینک دیتے ہیں، کبھی چھیچڑے پھینک دیا کرتے ہیں تو کبھی گڑھے ڈال کر چلے جاتے ہیں۔ یہ بات مجھے سوال کرنے پر مجبور کرتی ہے کہ کیا لڑکیاں لڑکوں کے برابر نہیں۔ کیا انہیں کھیلنے کا حق نہیں جب کہ وہ کھیلتے وقت بھی معاشرتی روایات کا خیال رکھتی ہیں اور جسم کو ڈھانپ لیتی ہیں حالانکہ اکثر بچیاں اتنی کم عمر ہیں کہ ان پر پردہ واجب بھی نہیں۔‘

ہانی نے مزید کہا ہے کہ فی الوقت اکیڈمی میں 50 لڑکیاں تربیت حاصل کر رہی ہیں اور ان میں سے کئی ایک قومی اور بین الاقوامی سطح پر کھیل چکی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ بعض لڑکیاں بہت غریب گھرانوں سے تعلق رکھتی ہیں کیونکہ یا تو ان کے والد جہانِ فانی سے کوچ کرچکے ہیں یا پھر وہ نشے کی لت میں زندگی ختم کرنے کے درپے ہیں۔
’اگر آپ ان لڑکیوں کو دیکھیں، ان کے مسائل سنیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ کہ جب اتنی مشکلوں سے یہ یہاں تک آتی ہیں تو ان میں کتنی ہمت ہوگی۔ ان میں بہت لگن ہے اور بہت کچھ کرنے کا جذبہ ہے۔‘

Published in Urdu News, 14 November 2019